المرصاد نے اس منصوبے تک رسائی حاصل کر لی ہے جسے داعشی خوارج نے افغانستان، پاکستان اور ایران میں مذہبی علماء کو قتل کرنے، مدارس اور اہل تصوف کے خانقاہوں اور بعض اسلامی تحریکوں کے ارکان پر حملہ کرنے کے لیے بنایا تھا۔
پاکستان میں اس منصوبے پر عمل درآمد کی ذمہ داری مفتی ابو عثمان، ابو محمد اور خان (جو داعش کی تشکیل کے اہم ارکان ہیں اور پاکستان میں رہتے ہیں، اور وہ اسلحے اور گولہ بارود کی خراسان شاخ کے ساتھ مدد بھی کرتے ہیں) کو دی گئی ہے۔ افغانستان میں ڈاکٹر عمر حیدر اور ایران میں اسد بلوچ کے حوالے کیا گیا۔
اس منصوبے کے مطابق داعشی خوارج افغانستان کے کابل، لغمان، ننگرہار اور قندوز میں کچھ مدارس اور مشہور علمائے کرام پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور پاکستان میں پشاور، باجوڑ اور بلوچستان میں کچھ مدارس اور علمائے کرام پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور ایران کے زاہدان اور سیستان میں بعض سنی علماء اور مدارس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ افغانستان کے انٹیلی جنس حکام نے پاکستان اور ایران کے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام کے ساتھ داعش کے منصوبے کے بارے میں معلومات شیئر کی تھیں اور ان سے کہا تھا کہ وہ علمائے کرام اور مدارس کی سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دیں۔
افغانستان کے انٹیلی جنس حکام نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ایک خصوصی ٹیم مقرر کی تھی، جو اپنے مسلسل کوششوں کے بعد اس منصوبے کو در آمد کرنے والے (انجینئر عمر) کے پناہ گاہ کو تلاش کرنے کے بعد اسپر آپریشن کرنے اور اسے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگیے، اور اس کے گروہ کے کچھ دوسرے افراد کو بھی ہلاک کیا اور مدارس اور علمائے کرام کی حفاظت کے لیے سینکڑوں سکیورٹی فورسز کو متعین کردیا،
لیکن پاکستانی حکام نے بروقت کوئی خاص اقدام نہیں کیا۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کو دوسری بار کہا گیا کہ وہ علمائے کرام اور مدارس کی سیکیورٹی پر توجہ دیں اور اقدامات کریں لیکن پھر بھی انہوں نے علماء کرام اور مدارس کی سکیورٹی کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے تھے۔
داعشی خوارج کے دہشت گردوں نے پشاور کے علاقے ماشوخیل میں اعجاز الحق نامی عالم دین، باجوڑ کے علاقے میں متعدد علمائے کرام اور بلوچستان میں بھی ایک عالم کو شہید کیا، اور پھر انہوں نے ایک بڑے اجتماع پر حملہ کرکے متعدد علماء و مشائخ کو شہید کیا۔
سیکورٹی ماہرین کے مطابق پاکستان نے چالاکی سے کام لیا اور حملہ ہوتے ہی امارت اسلامیہ پر الزام لگایا۔ حالانکہ اس حملے کی زمہ داری داعش نے قبول کر لی تھی۔
مبصرین کے مطابق پاکستانی حکام نے یہ کام یا تو اپنی سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی چھپانے کے لیے کیا یا پھر امارت اسلامیہ کو پاکستان کے مذہبی لوگوں میں برا ثابت کرنے اور افغانستان میں اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کو عام کرنے اور اس کے لیے ذہنیت کو تیار کرنے اور اپنانے کی حمایت کرنے کی تھی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ باجوڑ حملے سے کچھ عرصہ قبل ایک امریکی اہلکار (جنرل مائیکل کوریلا) بھی پاکستان آیا تھا، اس کے مقاصد پراسرار تھے اور اس نے کئی ملاقاتیں کیں۔